کیا بیوی اپنے شوہرکا نفس پکڑ سکتیہے اور اس کی مٹھ مار سکتی ہے مزہ لینے کے لیے اور شوہر کو خوش
عورتیں چاہتی ہیں کہ ان کے مرد یہ راز جان جائیں’’ہم میاں بیوی ایک دوسرے کو بے پناہ چاہتے ہیں ، پھر بھی ہماری جنسی زندگی کچھ ٹھیک نہیں جارہی ۔‘‘یہ شکایت ایک پڑھی لکھی خاتون نے کی ہے۔ وہ ہائی سکول میں ٹیچر ہے اور خاصی ذہین اور سمجھدار ہے ۔اچھاتو کیا تم نے اپنے شوہر سے اس مسئلہ پرگفتگو کی ہے ؟ میں نے زرینہ سے اس کی شکایت سن کر کہا ۔ اس کا شوہر لاہور کے ایک ہسپتال میں معروف ڈاکٹر ہے ۔ دونوں کی شادی کو بارہ برس بیت چکے ہیں۔میں جب کبھی ان کے گھر جاتا ہوں تو ایک خوش باش اور معقول حد تک کامیاب گھرانے کا احساس ہوتا ہے ۔ زرینہ اپنی شکایت نوک زبان پر نہ لاتی تو مجھے ان کی ازدواجی زندگی میں اس خامی کا کبھی احساس نہیں ہوسکتا تھا۔میں اس سے ہربات کرسکتی ہوں۔لیکن بابا، میں سیکسپر بات نہیں کرسکتی ۔ ہمت ہی نہیں پڑتی ۔ زرینہکہنے لگی ۔ آخر میں اسے کیسے بتاؤں کہ میں کیا چاہتی ہوں ۔آپ جانتے ہیں کہ یہ صرف زرینہ کا مسئلہ نہیں ۔ مختلف تعلیمی اور سماجی حیثیترکھنے والی عورتوں کو اکثر اوقات اسی قسم کے احساسات ہوا کرتے ہیں ۔۔جاری ہے ۔اس کے علاوہ یہ صرف ہمارے ملک کا معاملہ نہیں ہے۔ امریکا جیسے ترقی یافتہ اور جنسی طورپرآزاد روئیے رکھنے والے ملک میں بھی صورت حال اسی قسم کی ہے ۔اکثر شادہ شدہ افراد اپنے ساتھیوں کی جنسی ترجیحات سے بے خبر ہوتے ہیں ۔یہ الفاظ پامیلا شروک کے ہیں ۔ شروک صاحبہ امریکا کی نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے جنسی تعلیم کے پروگراممیں ذہنی معالجہ ہیں۔ ایک اور ممتاز امریکی ماہر کیتھلسن میکائے نے چند سال پہلے بہت سی شادی شدہ خواتین کاایک غیر رسمی سروے کیا تو معلوم ہوا کہ ان کی کئی ایسی جنسی ضرورتیںہیں جن سے ان کے شوہربالکل بے خبر رہتے ہیں ۔عورتیں چاہتی ہیں کہ کسی نہ کسی طور ان کےشوہروں کو ان ضروریات کی اطلاع ہوجائے ۔ مگر مسئلہ وہی ہے ’’ سمجھ میں نہیں آتا بات کہاں سے شروع کی جائے‘‘ ۔سروے مکمل کرنے کے بعد کیتھلسن میکائے نے امریکا کے چھ بہترین جنسی معالجین سے اس موضوع پر گفتگو کی ۔ تعجب کی بات ہے کہ وہ بھی ان عورتوں کی رائے سے متفق تھے کہ ان کے شوہروں کو ان جنسی ضرورتوں کو علم ہونا چاہئے ۔ آپ ان کو ایسے جنسی راز قرار دے سکتے ہیں جن سے عورتیں اپنے شوہروں کو باخبر دیکھنا چاہتی ہیں۔عورت کے لیے سیکس زندگی کا جزو ہوتی ہےمردوں کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ اکثر عورتیں اس وقت تک جنسی طور پر مطمئن نہیں ہوتیں جب تک ان کی مجموعی ازدواجی زندگی خوش گوار نہ ہو۔ گویا یہ نہیں ہوتا کہ ان کے دن اچھے نہ ہوں مگر راتیں اچھی ہوجائیں ۔سات برسوں سے حمید کے ساتھ بیاہی ہوئی انتیس سالہ بانو کا کہنا ہے۔جاری ہے ۔کہ ’’ حمید کو اس بات کی سمجھ نہیں آتی ۔ اسپردفتری کام کا بہت بوجھ ہے ۔ وہ بجھا بجھا سا گھر آتا ہے ۔میرے ساتھ کوئی بات نہیں کرتا ،کسی چاہت کااظہار نہیں کرتا ۔ آدھی رات تک ٹیلی ویژن دیکھتا رہتا ہے ۔پھر بیڈروم میں آتے ہی مجھے دبوچ لیتا ہے۔میں فورا ہی گرم جوشی نہ دکھاؤں تو اس کا موڈ بگڑ جاتا ہے‘‘ ۔بیڈ پر بیوی کے روئیے کا تعین اس امر پر ہوتا ہے کہ گھر میں شوہر کا رویہ اس کے ساتھ کیسا ہے اور گھر کے مجموعی ماحول کی کیفیت کیا ہے ۔ اگر دونوں کی شام لڑنے جھگڑنے یا ایک دوسرے سے بے نیازی میں گزری ہو تو پھر بیڈ پر عورت سردمہر اور لاتعلق ہوتی ہے ۔اکثر شوہر عورت کی اس فطرت سے لاعلم ہیں ۔ لہذا وہ بہت حیران ہوتے ہیں ۔ چنانچہ تینتالیس سالہ جمیل پوچھتا ہے ’’ عورت جنسی لمحات کو بذات خود اہم کیوں نہیںسمجھتی ؟ وہ ان کی قدر کیوں نہیں کرتی ؟ ان لمحوں سے لطف اٹھانے کے بجائے وہ پرانے لڑائی جھگڑے لے کر کیوں بیٹھ جاتی ہے ‘‘؟جمیل کے سوال کا جواب سٹین ہال ہونیورسٹیکی ماہر سماجیات لائن ایٹواٹر نے دیاہے ۔ وہ لکھتی ہیں ’’ عورتیں زندگی کے تمام معاملات کو ایک دوسرے سے جڑا ہوا سمجھتی ہیں جبکہ مرد مختلف معاملات کو الگ تھلگ رکھتے ہیں ۔ان کا خیال ہے کہ زندگی کی الجھنوں کو وقتی طورپر نظر انداز کرکے جنس کے مزے لیے جاسکتے ہیں‘‘ ۔جنسی امور کی شہرہ آفاق ماہر ورجیناجانسن اپنے علم اور مہارت کی بنا پر دعوی کرتی ہیں’’ جنسیت اور چاہت کو خانوں میں تقسیم نہیں کیاجاسکتا ۔بھرپور سیکس قربت اور چاہت کا تسلسل ہوتی ہے‘‘ ۔یہ حقیقت بہت اہم ہے ۔ چنانچہ ماہرین اچھی ازدواجی زندگی کے لیے یہ مشورہ دیا کرتے ہیں کہمیاں بیوی جب سیکس پر آمادہ نہ ہوں تو بھی ان کو ایک دوسرے کے لیے چاہت کا اظہار کرتے رہنا چاہئے ۔ شوہرشام کو گھر لوٹتے ہوئے ، کسی وجہ کے بغیر ہی ، بیوی کے لیے گلدستہ یا کوئی اور تحفہلے آئے۔جاری ہے ۔بچوں کو سیروتفریح کے لیے لے جائے تو اس قسم کی باتوں سے ان کی جنسی مسرتیں بڑھ جاتی ہیں۔ ان کی ازدواجی زندگی بہتر ہوجاتی ہے ۔ناگوار امور کے بارے میںنرمی سے مگر صاف صاف بات کرنے سے بھی مدد مل سکتی ہے ۔ وکی نے ایسا ہی کیا تھا ۔ اس نے شوہر کو صاف صاف کہہ دیا تھا کہ بیڈ پر جانے سے پہلے وہ اس کی توجہ اور گفتگو کی آرزو کرتی ہے ۔وکی نے ہمیں بتایا ’’ میری اس بات کا اچھا اثر ہوا ۔ اب ہم دونوںمیں ایک نئی مفاہمت پیداہوچکی ہے ۔ بیڈ ٹائم سے پہلے ہم ایک گھنٹہمل کر بیٹھتے ہیں ۔باتیں کرتے ہیں یا موسیقی سنتے ہیں ۔ اب ہم دونوں جنسی طورپر زیادہ مطمئن ہیں ۔گفتگو اکثر عورتوں کے لیے محرک ہوتی ہے رات کے کھانے کے دوران یا کسی اور فرصت کے وقت اچھی گفتگو سیکس کے لیے موثر محرک ثابت ہوتی ہے ۔ ایک دوسرے سے کہے جانے والے چاہت بھرے الفاظ رفاقت کی خواہش کو بڑھاتے ہیں ۔لائن ایٹواٹر کا ذکر پہلے کر چکے ہیں ۔ انہوں نے ایک اہم بات دریافت کی ۔ایٹواٹر صاحبہ نے کئی عورتوں کے انٹرویو لئے جنہوں نے اپنے شوہروں کے علاوہ غیر مردوں سے جنسی تعلقات استوار کر رکھے تھے۔ ان عورتوں کے مفصل مطالعےسے ایٹواٹر نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ غیر مردوں سےجنسی تعلق رکھنے والیپچھتر فیصد عورتوں کو محض جنسی تسکین کے لیے غیروں کی ضرورت نہیں پڑتی ۔ وہ آزادانہ مکالمے کی طلب گار ہوتی ہیں ۔ وہ بھرپوررفاقت چاہتی ہیں ۔لائن ایٹواٹر نے لکھا ہے ’’ میں نے جن عورتوں کا مطالعہ کیا ،ان میں سے ایک کو بخوبی علم تھا کہ اس کا آشنا نامرد ہے ۔ لیکن وہ لچھے دار باتیں کرنے کا فن جانتا تھا ۔ یوں اس کی صحبت میں اس عورت کو وہ کچھ مل جاتا تھا جو اس کا شوہر اس کو نہ دے سکتا تھا۔جاری ہے ۔م یا دینے پرآمادہ نہ تھا‘‘۔کیلی فورنیا یونیورسٹی کے سکول آفمیڈیسن کی نفسیات دان لونی بارباخ نے اس بات کو آگے بڑھایا ہے ۔ وہ کہتی ہیں ’’ بہت سی عورتوں کے لیے سیکس سے زیادہ اہم بات یہ ہوتی ہے کہ ان کو چاہے جانے کا احساس دلایا جائے ۔ ان کے ساتھ باتیں کی جائیں ۔ خاص طور پر وہ عورتیں جو سارا دن گھریلو کام کاجاور بچوں کی دیکھ بھال میں مصروف رہتی ہیں ،وہ گفتگو کے لیے ترستی ہیں ۔ ان سے باتیںکی جائیں ، ان کی بات سنی جائے اور ان سے میٹھے بول کہے جائیںتو وہ خوشی سے پھولی نہیں سما تیں‘‘۔میرے ایک بیالیس سالہ دوست امجد کو اس کا ذاتی تجربہ ہے ۔ دس سال پہلے اس کی شادیشبنم سے ہوئی تھی ۔ وہ کہتا ہے کہ شروع شروع میں محبت کا اظہارمیرے بس کا روگ نہ تھا۔میں اس معاملے میںبہت شرمیلا اور نکما تھا ۔ لیکن ایک رات میں گہرا سانس لیا اور دل کیبات شبنم سے کہہ ڈالی ۔ میں نے اسے بتایا کہ مجھے اس سے گہری محبت ہے ۔ میرے لیے وہ دنیا کی حسین ترین عورت ہے ۔ میرے الفاظ سے وہ بہت متاثر ہوئی ۔اب میں گاہے بگاہے اپنے جذبوںکو الفاظ کا روپ دیتا رہتا ہوں ۔ اس طرح ہماری زندگی ہی بدل گئی ہے ۔ہم بہت خوش اور ایک دوسرے سے مطمئن ہیں‘‘۔عورتوں کو بھی جنسی کارکردگی کی تشویش لاحق ہوتی ہے عورتوں کے جنسی رویوں کے بہت سے سائنسی مطالعے کیے گئے ہیں ۔انکے نتیجے میں سامنے آنے والے حقائق میں سے ایک یہ ہے کہ صرف ساٹھ فیصد عورتیں ایسی ہیں کہ جتنی بار وہ جنسی فعل کرتی ہیں وہ انزال تک پہنچتی ہیں ۔اکثر عورتوں کو اپنے
ساتھی یا خود اپنی طرف سے انزال کے لیے دباؤ ہوتا ہے ۔اس موضوع کو اٹھاتے ہوئے ایک ماہر نفسیات نے لکھا ہے ’’ لوگ بھول جاتے ہیں کہ بسااوقات محبوب کی رفاقت بذات خود لطف انگیز ہوتی ہے ۔اکثر مردوں کے نزدیک اچھا جنسی ساتھی وہ ہوتا ہے جو اپنی بیوی کو ڈرامائی جنسی تسکین سے ہمکنار کرتا ہے۔جاری ہے ۔۔بلاشبہ اس قسم کے لمحات زبردست ہوتے ہیں لیکن ہر بار ضروری نہیںہوتے ‘‘۔انزال کو مقصد بنا کر سیکس کرنے کا معاملہ ایسے ہی ہے جیسے ہم گردوپیش کے مناظر سے لطف اندوز ہونے کےبجائے منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے اندھا دھند بھاگتے چلے جائیں ۔ سیکس کا مقصد باہمی رفاقت سے مسرت حاصل کرنا ہے ۔ اس کے سوا اور کچھ نہیں ۔ چنانچہ جو عورتیں یا مرد انزال کو ٹارگٹ بنا کر سیکس کرتے ہیں ، ان پرمنزل تک پہنچنے کی تشویش رہتی ہے ۔وہ سارامزہ کرکرا کردیتی ہے۔بہتسی عورتیں اپنی جسمانی کشش کے بارے میں تشویش میں مبتلا رہتی ہیں۔ دو بچوں کی ماں انتالیسسالہ فریحہ کہتی ہیں ’’ شادی کے دس برسوں میں میرا وزن چھبیس پونڈ بڑھ گیا ہے ۔ میں پریشان رہتی ہوں کہ شاہد کہیں بددل نہ ہوجائیں‘‘ ۔شوہر بیوی کو دلکشی اور چاہت کا احساس کس طرح دلا سکتا ہے ؟اس کا سیدھاسا طریقہ یہ ہے کہ بناوٹ سے کام نہ لیا جائے ۔بیوی موٹی ہے تو اس کو پھول کی پنکھڑی سے تشبیہ دینے کی ضرورت نہیں ۔ہاں اس میں جو بات اچھی لگتی ہے ،اس کی تعریف ضرور کریں ۔ بیویکے ہاتھ خوبصورت لگتے ہیں تو یہ بات اس کو جتلاتے رہا کریں ۔آنکھیں پسند ہیں ،تو شرم کی کون سی بات ہے ۔ ان کی تعریف کردیں ۔اس سلسلے میں ایک اور بات یہ ہے کہ بیڈ پر بہت سنجیدہ رویہ کوئی قابل تعریف معاملہ نہیں ۔ یہ ہنسنے کھیلنے کے لمحات ہیں ۔ان کو بوجھ نہ بنایا کریں ۔سیکس کےبعد توجہ عورت کو تسکین دیتی ہے اکیس سال سے شادی شدہ چوالیس سالہ زبیدہ کو اب بھی گلہ ہے کہ جنسی فعل کے بعد وہ تنہائی محسوس کرتی ہے ’’میرا میاں شب بخیر بھی کہے بغیر منہ موڑکر خراٹے لینے لگتا ہے‘‘ ۔اس قسم کی شکایتیں بہت سی عورتیں کرتی ہیں ۔ ان کو شوہروں کا یہ رویہ پسند نہیں ہوتا ۔ وہ چاہتی ہیں کہ سیکس کے بعد منہ پھیرنے کی بجائے شوہر ان پر توجہ مرکوز رکھے ۔ یہ ان کے لیے خوشی کا باعث ہوتا ہے ۔وہ چاہتی ہیں کہ شوہروں کو اس ضرورت کا علم ہو جائے ۔جن عورتوں کے شوہر سیکس کے بعد بھی متوجہ رہتے ہیں ، وہ خاص قسم کی مسرت محسوس کرتی ہیں ۔ وہ توجہ طلب لمحات کو جنسی فعل کے بعد بھی جاری رکھنا چاہتی ہیں ۔لہذا بعد میں ان سے دو میٹھی باتیں ضرور کریں ۔ اور ہاں ان لمحوں میں کوئی غلط بات کہنے سے گریز کریں ۔ بارباخ کی تلقین یہ ہے ’’ شوہر کو اس وقت کوئی نکتہ چینی نہیں کرنی چاہئے‘‘ ۔ایک تجربہ کار خاتون کا عورتوں کو مشورہ یہ ہے کہ ان کو بھی جنسی فعل کے بعد کے لمحات میں احتیاط سے گفتگو کرنی چاہئے ۔ اس خاتون نے اپنی ایک سہیلی کی حماقت کی مثال دیتے ہوئے کہا ’’ایک بار بھرپور سیکس کے بعد اس نے اپنے شوہر سے کہا آج آخری تاریخ تھی تم نے سوئی گیس کا بل جمع کرا دیا تھا ۔‘‘ یہ برسوں پرانی بات ہے مگر ہم آج بھی اس پرہنسا کرتے ہیں ۔ اس قسم کی حماقتوں سے بہتر یہ ہے کہ میاں بیوی چند لمحوں کے لیے باقی دنیا کو فراموش کردیں ۔عورتوں کو غیر جنسی چھیڑ چھاڑ بھی چاہئے بتیس سالہ شیلا اپنے شوہر کی ایک ہی شکایت کرتی ہے کہ وہ صرف اس وقت اس کو چھوتا ہے جب وہ سیکس پر آمادہ ہوتا ہے ’’ کبھی میرا دل چاہتا ہے کہ وہ محض چھیڑ چھاڑ میں مجھے چوم لے یا چھو ہی لے ۔ پتہ نہیں اس کے لیے یہ کام مشکل کیوں ہے ‘‘؟شیلا کے شوہر کا کہنا ہے کہچھونے سے جنسی جذبے بھڑک اٹھتے ہیں۔لہذا وہ غیر ضروری لمحات میں اس سے گریز ہی کرتا ہے ۔آئیے اس بارے میں ایٹواٹر صاحبہ سے پوچھتے ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ یہ رومانس غیر معمولی نہیں ۔ عورتیں رومانس چاہتی ہیں ۔یہ ان کی ذہنی ضرورت ہے۔ اس کو پورا کرنا چاہئے ‘‘۔’’ میاں بیویکا رشتہ زندگی کا اہم ترین تعلق ہے ۔ان کو باہمی رفاقت کے لمحوں کو باقی چیزوں پر ترجیححاصل ہونی چاہئے ۔ قربتکا مطلب لازمی طورپر سیکس نہیں ہے ۔ اس کا مطلب ایک دوسرے کے جذبوں میں شراکت ہے ۔ دونوں کو اکٹھا گزارنے کے لیے وقت نکالنا چاہئے ۔ بھرپور زندگی کے لیے یہ معاملہ بہت ضروری ہے‘‘ ۔مزید پڑھیںبڑے ممے والی سالی کے ساتھ یہ طلہ لگاکر نفس کی پوری رات سروس کی اتنی لذت کہ مزہ آگی
ساتھی یا خود اپنی طرف سے انزال کے لیے دباؤ ہوتا ہے ۔اس موضوع کو اٹھاتے ہوئے ایک ماہر نفسیات نے لکھا ہے ’’ لوگ بھول جاتے ہیں کہ بسااوقات محبوب کی رفاقت بذات خود لطف انگیز ہوتی ہے ۔اکثر مردوں کے نزدیک اچھا جنسی ساتھی وہ ہوتا ہے جو اپنی بیوی کو ڈرامائی جنسی تسکین سے ہمکنار کرتا ہے۔جاری ہے ۔۔بلاشبہ اس قسم کے لمحات زبردست ہوتے ہیں لیکن ہر بار ضروری نہیںہوتے ‘‘۔انزال کو مقصد بنا کر سیکس کرنے کا معاملہ ایسے ہی ہے جیسے ہم گردوپیش کے مناظر سے لطف اندوز ہونے کےبجائے منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے اندھا دھند بھاگتے چلے جائیں ۔ سیکس کا مقصد باہمی رفاقت سے مسرت حاصل کرنا ہے ۔ اس کے سوا اور کچھ نہیں ۔ چنانچہ جو عورتیں یا مرد انزال کو ٹارگٹ بنا کر سیکس کرتے ہیں ، ان پرمنزل تک پہنچنے کی تشویش رہتی ہے ۔وہ سارامزہ کرکرا کردیتی ہے۔بہتسی عورتیں اپنی جسمانی کشش کے بارے میں تشویش میں مبتلا رہتی ہیں۔ دو بچوں کی ماں انتالیسسالہ فریحہ کہتی ہیں ’’ شادی کے دس برسوں میں میرا وزن چھبیس پونڈ بڑھ گیا ہے ۔ میں پریشان رہتی ہوں کہ شاہد کہیں بددل نہ ہوجائیں‘‘ ۔شوہر بیوی کو دلکشی اور چاہت کا احساس کس طرح دلا سکتا ہے ؟اس کا سیدھاسا طریقہ یہ ہے کہ بناوٹ سے کام نہ لیا جائے ۔بیوی موٹی ہے تو اس کو پھول کی پنکھڑی سے تشبیہ دینے کی ضرورت نہیں ۔ہاں اس میں جو بات اچھی لگتی ہے ،اس کی تعریف ضرور کریں ۔ بیویکے ہاتھ خوبصورت لگتے ہیں تو یہ بات اس کو جتلاتے رہا کریں ۔آنکھیں پسند ہیں ،تو شرم کی کون سی بات ہے ۔ ان کی تعریف کردیں ۔اس سلسلے میں ایک اور بات یہ ہے کہ بیڈ پر بہت سنجیدہ رویہ کوئی قابل تعریف معاملہ نہیں ۔ یہ ہنسنے کھیلنے کے لمحات ہیں ۔ان کو بوجھ نہ بنایا کریں ۔سیکس کےبعد توجہ عورت کو تسکین دیتی ہے اکیس سال سے شادی شدہ چوالیس سالہ زبیدہ کو اب بھی گلہ ہے کہ جنسی فعل کے بعد وہ تنہائی محسوس کرتی ہے ’’میرا میاں شب بخیر بھی کہے بغیر منہ موڑکر خراٹے لینے لگتا ہے‘‘ ۔اس قسم کی شکایتیں بہت سی عورتیں کرتی ہیں ۔ ان کو شوہروں کا یہ رویہ پسند نہیں ہوتا ۔ وہ چاہتی ہیں کہ سیکس کے بعد منہ پھیرنے کی بجائے شوہر ان پر توجہ مرکوز رکھے ۔ یہ ان کے لیے خوشی کا باعث ہوتا ہے ۔وہ چاہتی ہیں کہ شوہروں کو اس ضرورت کا علم ہو جائے ۔جن عورتوں کے شوہر سیکس کے بعد بھی متوجہ رہتے ہیں ، وہ خاص قسم کی مسرت محسوس کرتی ہیں ۔ وہ توجہ طلب لمحات کو جنسی فعل کے بعد بھی جاری رکھنا چاہتی ہیں ۔لہذا بعد میں ان سے دو میٹھی باتیں ضرور کریں ۔ اور ہاں ان لمحوں میں کوئی غلط بات کہنے سے گریز کریں ۔ بارباخ کی تلقین یہ ہے ’’ شوہر کو اس وقت کوئی نکتہ چینی نہیں کرنی چاہئے‘‘ ۔ایک تجربہ کار خاتون کا عورتوں کو مشورہ یہ ہے کہ ان کو بھی جنسی فعل کے بعد کے لمحات میں احتیاط سے گفتگو کرنی چاہئے ۔ اس خاتون نے اپنی ایک سہیلی کی حماقت کی مثال دیتے ہوئے کہا ’’ایک بار بھرپور سیکس کے بعد اس نے اپنے شوہر سے کہا آج آخری تاریخ تھی تم نے سوئی گیس کا بل جمع کرا دیا تھا ۔‘‘ یہ برسوں پرانی بات ہے مگر ہم آج بھی اس پرہنسا کرتے ہیں ۔ اس قسم کی حماقتوں سے بہتر یہ ہے کہ میاں بیوی چند لمحوں کے لیے باقی دنیا کو فراموش کردیں ۔عورتوں کو غیر جنسی چھیڑ چھاڑ بھی چاہئے بتیس سالہ شیلا اپنے شوہر کی ایک ہی شکایت کرتی ہے کہ وہ صرف اس وقت اس کو چھوتا ہے جب وہ سیکس پر آمادہ ہوتا ہے ’’ کبھی میرا دل چاہتا ہے کہ وہ محض چھیڑ چھاڑ میں مجھے چوم لے یا چھو ہی لے ۔ پتہ نہیں اس کے لیے یہ کام مشکل کیوں ہے ‘‘؟شیلا کے شوہر کا کہنا ہے کہچھونے سے جنسی جذبے بھڑک اٹھتے ہیں۔لہذا وہ غیر ضروری لمحات میں اس سے گریز ہی کرتا ہے ۔آئیے اس بارے میں ایٹواٹر صاحبہ سے پوچھتے ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ یہ رومانس غیر معمولی نہیں ۔ عورتیں رومانس چاہتی ہیں ۔یہ ان کی ذہنی ضرورت ہے۔ اس کو پورا کرنا چاہئے ‘‘۔’’ میاں بیویکا رشتہ زندگی کا اہم ترین تعلق ہے ۔ان کو باہمی رفاقت کے لمحوں کو باقی چیزوں پر ترجیححاصل ہونی چاہئے ۔ قربتکا مطلب لازمی طورپر سیکس نہیں ہے ۔ اس کا مطلب ایک دوسرے کے جذبوں میں شراکت ہے ۔ دونوں کو اکٹھا گزارنے کے لیے وقت نکالنا چاہئے ۔ بھرپور زندگی کے لیے یہ معاملہ بہت ضروری ہے‘‘ ۔مزید پڑھیںبڑے ممے والی سالی کے ساتھ یہ طلہ لگاکر نفس کی پوری رات سروس کی اتنی لذت کہ مزہ آگی
Comments
Post a Comment